Alfia alima

Add To collaction

مرد کا اعتبار

مرد کا اعتبار
اپنی بیوی شانتا کی وفات کے ایک ماہ بعد پروفیسر گپتا ہمارے گھر آئے تو بڑے اداس اداس تھے۔ جب چاچی نے باتوں باتوں میں کہا کہ شانتا بہن کی عدم موجودگی میں انہیں شدید تنہائی کا احساس ہوتا ہوگا، بچوں کی دیکھ بھال میں بھی دشواری ہوتی ہوگی اور اشارہ کیا کہ انہیں دوسری شادی کرلینی چاہیے تو پروفیسر صاحب بلبلا اٹھے، ’’شانتا کی سی بھولی بھالی، خوبصورت، سلیقہ شعار، نیک اور ہمدرد بیوی اب کہاں ملے گی؟‘‘ انہوں نے کہا، ’’میں جب کبھی سوچتا ہوں کہ شانتا کو کھوکر میں نے کتنی بڑی دولت کھودی ہے تو دل بے ساختہ بھرآتا ہے۔۔۔‘‘ اور پروفیسر صاحب جب تک بیٹھے رہے اپنی ازدواجی زندگی کے خوش گوار اور شیریں واقعات سناکر شانتا جی کی سلیقہ شعاری، ان کے حسن، ان کی سیرت، ان کی ہمدردی اورمحبت کی باتیں کرتے رہے۔ 

ان کے جانےکے بعد دیر تک چاچی ان کی کامیاب ازدواجی زندگی اور اپنی بیوی سے ان کی بے پناہ محبت کا ذکر کرکے ان سے ہمدردی کا اظہار کرتی رہیں اور پھر جب تک پروفیسر صاحب دوبارہ نہ آئے، وہ دن میں ایک نہ ایک بار ضرور ان کا ذکر کرتی اور آنکھیں بھر لاتی رہیں۔ جب پندرہ بیس دن بعد پروفیسر صاحب پھر آئے تو میں نے دیکھا کہ ہرچند ان کے چہرے پر اداسی کی جھلک موجود تھی تاہم اس کی گہرائی چھٹ گئی تھی۔ چاچی کے پاس غالباً بات کرنےکو دوسرا موضوع ہی نہ تھا، انہوں نے پھر پروفیسر صاحب کے احساس تنہائی اور بچوں کی غور و پرداخت کی بات چھیڑ دی۔ میں نے پروفیسر صاحب کی طرف دیکھا۔ مجھے لگا، جیسے بادلوں کو چیر کر آفتاب خواہ پوری آب و تاب سے نہ چمکا ہو، تاہم ایک لمحے کے لیے اس کی چمک، بادل کے باوجود پورے آسمان میں دوڑ گئی۔ انہوں نے مسکرا کر کہا، ’’آپ ٹھیک کہتی ہیں۔ میں نے بھی یہی طے کیا ہے،ایک جگہ بات پکی کرلی ہے۔۔۔‘‘ 

’’کہاں؟‘‘ چاچی نے فراط انبساط سےچونک کر اشتیاق آمیز لہجے میں کہا، ’’اور ہمیں بتایا تک نہیں۔‘‘ 

’’میرے ایک ساتھی پروفیسر ہیں۔‘‘ گپتا صاحب بولے، ’’انہیں کی بہن ہے۔۔۔ شکنتلا۔ اس نےاسی سال بی۔ اے کیا ہے۔ شانتا کا مقابلہ تو کیا کرے گی، لیکن میرے دوست نے زور دے کر پھانس لیا ہے۔ میں نے بھی سوچا کہ پڑھی لکھی ہے، بچوں سے نفرت و کدورت نہ روا رکھے گی۔‘‘ 

’’بی۔ اے پاس ہے پھر تو بہت اچھا ہے۔‘‘ چاچی نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے تائید کی۔ 

’’نہیں، اچھا تو کیا ہے۔‘‘ پروفیسر صاحب بولے، ’’شانتا کی جگہ تو کہاں پر ہوسکتی ہے، یہ زخم تو کبھی بھر ہی نہیں سکتا۔ لیکن لوگوں کی آنکھوں سے بچا رہے، یہی کوشش کر رہاہوں۔‘‘ انہوں نے ایک لمبی سانس لی اور بڑے پردرد لہجے میں یہ دوہا پڑھا، 

کبِرا نج من کی بتھا، من ہی میں راکھو گوئے 

سن اٹھلی ہیں لوگ سب بانٹ نہ لیہیں کوئے 

(کبیر اپنےمن کا دکھ من ہی میں چھپا کر رکھو۔ سن کر لوگ ہنستے ہیں بٹاتا کوئی بھی نہیں) 

رات کو چاچی لیٹیں تو انہیں نیند نہ آئی۔ وہ ذرا رومانی مزاج کی خاتون تھیں۔ چاچا جی کی بے پروائی کا دکھڑا روتے ہوئے پروفیسر گپتا کی تعریف کرنے لگیں کہ انہیں شانتا سے کتنا پیار ہے۔ ہم مرجائیں گے تو ہمیں کوئی یاد بھی نہ کرے گا۔ انہوں نےایک سردآہ بھری۔ لیکن جب گپتا صاحب شادی کرکے آئے تو نئے ماہتاب کے نور کی کرنیں جھلملا رہی تھیں اور ان میں کہیں بہت نیچے ڈوب جانے والے چھوٹے سے بے مایہ ستارے۔۔۔ شانتا کا کہیں پتہ بھی نہ تھا۔ جب تک پروفیسر صاحب بیٹھے رہے، شکنتلا جی کی تعریفوں کے گیت گاتے رہے۔۔۔ ان کی تعلیم، ان کی تہذیب، ان کی خوش اخلاقی غرض کہ ان کی ایک ایک ادا کا نہایت تفصیل سے ذکر کرکے سننے والوں کو حیرت زدہ کرتے رہے۔ چاچی کا دل انہوں نے شکنتلا کی باتوں سے ایسا لبھایا کہ انہوں نےگپتا صاحب سے دوسرے ہی روز شکنتلاجی کوساتھ لے کر آنے اور کھانا کھانے کا وعدہ لے لیا۔ 

ان کے جانے کے بعد ہی چاچی نوکر کو کھانے کے بارے میں ہدایات دینے لگیں۔ انہیں شکنتلا کی قسمت پررشک آ رہا تھا۔ چاچا جی پیسے کمانے کے فن میں خواہ کتنے ہی طاق ہوں، لیکن گھریلو زندگی کو کامیاب بنانے کے فن میں وہ گپتا کے پاسنگ بھی نہ تھے۔ چاچی کی باتوں اور لمبی لمبی آہوں سے کم از کم میں اسی نتیجے پر پہنچی۔ چراغ جلے چاچا جی گھر آئے تو اپنی عادت کے مطابق بچوں کو کھلانے پلانے، ریڈیو کے گانے اور راجہ رانی کی کہانیاں سنا کر انہیں سلانے میں محو ہوگئے۔ اور اچچی کی لمبی آہیں اور بھی لمبی ہوتی گئیں۔ دوسرے دن پروفیسر صاحب اپنی دلہن کے ساتھ کھانا کھانے آئے تو ان کا چہر اس آئینہ کے مانند چمک رہاتھا جس پر سورج کا سیدھا عکس پڑ رہا ہو۔ شکنتلا جی کے وجود کی روشنی میں گویا وہ جگ مگ جگ مگ کر رہے تھے۔ شکنتلا جی کی ہر ایک ادا، ہر مسکراہٹ اور ہر بات کا عکس پرفیسر صاحب کے چہرے پر جھلک اٹھتا تھا۔ 

چاچی نئے شادی شدہ جوڑے کی خاطر تواضع میں جس بے پناہ مسرت کا اظہار کر رہی تھیں، اس کے باوجود میں نے ان کے چہرے پر کئی بار جذبہ رشک کی ہلکی سی جھلک بھی دیکھی اور ایک دو بار ان کی دبی سانس بھی سنی۔ جب کھانا کھانے کے بعد پروفیسر صاحب شکنتلا جی کے ساتھ رخصت ہوئے تو چاچی نے شکنتلا کی قسمت کو سراہا، جنہیں ایسا پیارا ساتھی مل گیا تھا۔ اور شکنتلا جی کا بخت تھا بھی سراہنے کے قابل، کیونکہ جب پروفیسر صاحب پھر آئے تو شکنتلا جی کی خوبیوں کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے شانتا کے ان عیوب کا بھی ذکر کیا، جو اب تک ان کی آنکھوں سے اوجھل تھے۔ اونٹ والا اس وقت تک اونٹ کی مستانی چال ہی کا گرویدہ رہتا ہے جب تک اسے ہاتھی کی سواری نہ ملے۔ ہاتھی کے ہودے پر بیٹھ کر اسے معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ کتنا ٹھگتا تھا اور اس میں کیا کیا عیب تھے۔ 

پروفیسر صاحب کی حالت بھی کچھ اس اونٹ والے کی سی ہی تھی۔ ہاتھی کی مستانہ چال کے آگے اونٹ کی بے ڈھنگی رفتار، ہاتھی کی پہاڑ سی پیٹھ کے مقابلے میں اونٹ کا پھدا سا کوہان اور ہاتھی کی ذہانت اور ہوشیاری کے مقابلے میں اونٹ کی بے وقوفی کئی گنا بڑھ کر انہیں تکلیف دے رہی تھی۔ انہیں افسوس تھا کہ انہوں نے یہ سب پہلے کیوں نہیں دیکھا۔ شکنتلا جی کو بچوں کی تعلیم و تربیت کا کتنا خیال ہے، اس بات کو بھی بڑی تفصیل کے ساتھ پروفیسر صاحب نے بیان کیا۔ بڑے بچوں کو ہوسٹل میں اور بچی کو نرسری اسکول میں انہوں نے داخل کروایا تھا اور ہفتے میں دوبار انہیں دیکھنے جاتی اور ان کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا خیال رکھتی تھیں۔ 

’’لیکن آپ کے بچے تو خاصے چھوٹے ہیں۔‘‘ چاچی نے تعجب ظاہر کرتے ہوئے کہا۔ اور اس کے جواب میں پروفیسر صاحب نے بچوں کو بچپن ہی سے ہوسٹل میں رکھنے کے فوائد پر چھوٹا سا لکچر دے ڈالا۔۔۔ کس طرح ہوسٹل میں رہ کر بچے خود اعتمادی کا سبق سیکھتے ہیں اور کس طرح بچوں کے وہ اوصاف ابھر آتے ہیں جو والدین کے لاڈ پیار میں دبے رہتے ہیں۔ لیکن شکنتلا جی پروفیسر صاحب کے بچوں کے دبے ہوئے اوصاف کو ابھارنےکا موقع نہ پا سکیں اور اپنے پہلے بچے کی پیدائش کے ایک دن بعد ہی پروفیسر صاحب کو اپنی رفاقت کی لامحدود خوشی سے محروم کر کے سورگ سدھار گئیں۔ 

ان کی موت کے بعد جب پروفیسر صاحب پہلی بار ہمارے گھر آئے توا ن کی غم زدہ صورت دیکھ کر چاچی آبدیدہ ہوگئیں۔ پروفیسر صاحب کا چہرہ بالکل سیاہ پڑگیا تھا۔ معلوم ہوتا تھا گویا سورج کے عکس سے چمکنے والے آئینے پر ایک دم سیاہی پوت دی گئی ہو۔ کس طرح آکر اس نے بچوں کو سنبھال لیا تھا، کس طرح ان کی تعلیم و تربیت کے لیے اس نے شہر بھر کے اسکول اور ہوسٹل دیکھ ڈالے تھے۔ کس طرح وہ ان کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کا خیال رکھتی تھی۔ ان سب باتوں کا بار بار ذکر کرکے وہ بے حال ہوئے جا رہے تھے۔ چاچی نے بچوں کے مستقبل کو لے کر اشارہ کیا تو پروفیسر صاحب نے جس مایوسی سے سر ہلایا، اس سے معلوم ہوتا تھا کہ دوسرے جنم میں ممکن ہو تو ہو، لیکن اس جنم میں شکنتلا کی سی لڑکی ملنا قطعی ناممکن ہے۔ 

لیکن ابھی شکنتلا جی کو مرے ہوئے ایک ماہ بھی پورا نہ ہوا تھا کہ پروفیسر صاحب نے کسی سیتا جی کا ذکر کیا جو اسکول میں مسٹریس تھیں اور جنہوں نے پروفیسر صاحب کو پہلی بار بتایا تھا کہ بچے ہوسٹل میں کبھی ٹھیک نہیں رہ سکتے۔ ہوسٹل کے ٹیچر اور نوکر بچوں کی غور و پراخت سے وہ دل چسپی لے ہی نہیں سکتے جو والدین اپنے بچوں کی دیکھ بھال سے لیتے ہیں۔ کچھ دن پروفیسر صاحب نے سیتا جی کی دوراندیشی، سلیقہ شعاری اور عقل مندی کی بڑی تعریف کی اور دو ماہ بعد جب وہ اسکول چھوڑ کر مسز گپتا بن گئیں تو مجھے کوئی حیرت نہ ہوئی۔ چاچی تو ان کا خیر مقدم بڑی دھوم دھام سے کرنا چاہتی تھیں مگر یہ آرزو وہ پوری نہ کر سکیں۔ انہیں قلب کی بیماری بہت مدت سے تھی۔ اس بار جو دورہ ہوا تو چاچا جی کی ساری تیمار داری اور ڈاکٹروں کی تمام دواؤں اور انجکشنوں کے باوجود وہ بچ نہیں سکیں۔ 

ان کے مرنے کے بعد چاچا جی نے پھر شادی نہیں کی۔ بہت جگہ سے پیغام آئے۔ دوستوں نے بھی بہت کہا مگر چاچا جی نہیں مانے۔ ’’نمو کے ساتھ اتنے دن گزارنے کے بعد کسی اور کے ساتھ رہنے میں کوئی تک ہی نہیں۔‘‘ انہوں نے ایک بار کہا اور پھر دوسری بات ہی نہیں کی۔ پروفیسر گپتا اب بھی کبھی کبھی آتے ہیں۔ شکنتلا جی کی روشنی مدھم پڑ چکی ہے اور سیتا جی کی چمک دن دونی رات چوگنی بڑھ رہی ہے۔ مجھے کبھی کبھی چاچی کی سرد آہیں یاد آجاتی ہیں اور خود میرے ہونٹوں سے کبھی کبھی سرد آہ نکل جاتی ہے۔ 

   1
0 Comments